نور صباح رخشانی ۔۔۔ایک ماں ۔۔ایک میڈیکل ڈاکٹر اور جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف پبلک ہیلتھ سے پی ایچ ڈی کرنے والی ایک ایسی پاکستانی ڈاکٹر ہیں۔ جن کا تعلق بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ہے۔ نور صباح اپنی دو بچیوں کے ساتھ پی ایچ ڈی کرنے امریکہ آئیں اور اب پاکستان واپس جاکر صحت عامہ کے شعبے کو بہتر بنانے کے لئے کام کرنا چاہتی ہیں ۔ نور صباح نے بالٹی مور کی جانزہاپکنز یونیورسٹی سے پہلے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔
نور صباح کہتی ہیں کہ دو بچیوں کی پرورش کے ساتھ ایک انتہائی اہم امریکی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنا آسان نہیں تھا۔
“جب میں پا کستان سے یہا ں آ رہی تھی، تو مجھے خود بھی بہت مشکل لگ رہا تھا۔ لیکن الحمدللہ سب کام بخوبی ہو گئے ۔۔کچھ عرصہ کے لئے میرے شوہر اورمیری امی میرے ساتھ رہے ۔ سب سے بڑی با ت امریکہ کا سکو ل سسٹم بہت بڑا سہاراہے۔ میرے دونوں بچے پبلک سکو ل جا تے ہیں ۔ پبلک سکو ل میں کو ئی فیس نہیں ہوتی ۔مجھے بالکل فکر نہیں ہوتی کہ ان کی پڑھائی کیسے ہو رہی ہے۔ملنے جلنے والوں اور ساتھ کام کرنے والوں سے بھی کافی مدد مل جاتی ہے ۔ سکو ل کے باقاعدہ گھنٹے ختم ہونے کے بعد آفٹر سکول پروگرام ہوتے ہیں، جہاں بچے چھ بجے شام تک رہ سکتے ہیں۔ آ فٹر سکول پروگرام کی کم سے کم 50 ڈالر کی فیس ہے۔ان سے آپ نے پہلے سے معاہدہ کیا ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن یا دو دن بچے آفٹر سکول پروگرام میں شام چھ بجے تک رہ سکتے ہیں۔ ان کو ہوم ورک اور لنچ کرایا جاتا ہے، دیگر سرگرمیاں بھی ہو تی ہیں۔ تو اکثر جب میری شام کی کلاسیں ہوتی ہیں یا مجھے کسی کام سے با لٹی مو ر شہر سے با ہر جانا پڑتا ہے تو میری بچیوں کے سکول سے بہت مدد ملتی ہے ۔‘‘
شروع میں ایک سال کچھ مشکل تھا ،کیونکہ کورس ورک ذرا زیادہ ہو تا ہے۔ اس کا سہرا جانز ہاپکنز سکو ل کی انتظا میہ کو جاتا ہے کہ جانز ہاپکنز میں اور امریکہ کی دوسری یونیورسٹیز میں بھی پڑھنے کے عمل میں کوئی سختی نہیں ہوتی کہ آپ نے فلاں کورس اسی سال اور اسی ٹرم میں لینا ہے۔میرے پاس چار سال تھے۔ میں نے چا ر سال میں اپنا کورس پھیلایا ۔ میری پی ایچ ڈی ایڈوائزر نے مجھے اچھے مشورے دیئے ۔ میری ایڈوائزر کو معلوم ہے کہ میرے چھوٹے بچے ہیں ۔ جب میری اپنی ایڈوائزر کے ساتھ میٹنگ ہوتی ہے ، تو سب سے پہلے بچوں کا حال چال پوچھتی ہیں ۔ اسطرح سے یہ فا ئدہ ہوتا ہے کہ آپ اپنا کورس ورک اپنی مرضی سے منتخب کر سکتے ہیں ۔ میں نے چار سال میں اپنے 120 کریڈٹ آورز مکمل کرلئے ہیں۔‘‘
’’یہاں آن لائن کورسز بھی دستیاب ہیں ، بلکہ اب تو ریسرچ کے زیادہ تر وسائل اور لائبریری کے میٹیریل تک رسائی بھی آن لائن ممکن ہے۔ تو کچھ کورسز میں نے آن لا ئن کئے ۔ اگر کو ئی آرٹیکل یا کتاب درکار ہو ، تو وہ آن لائن مل جاتی ہے۔یعنی ٹیکنالوجی کا بہت فائدہ ہو رہا ہے ۔ مجھے کو لیگز کے ساتھ اگرمیٹنگز کرنی ہوں تو میں آن لائن کانفرنس کال سے کر لیتی ہوں ۔ میرے بچوں کے ساتھ پڑھنے والے دوسرے بچوں کی مائیں بھی میری بہت مدد کرتی ہیں ۔ اگر کبھی مجھے سکول میں دیر ہو جائے ، اور میں انہیں سکول سے بروقت نہ لے سکوں ، تو کسی نہ کسی بچے کی والدہ میرے بچوں کو سکول سے لانے، لے جانے میں مدد ضرور کرتی ہیں۔‘‘
نور صباح کہتی ہیں کہ انہوں نے امریکہ میں سب سے اہم جو چیز سیکھی ، وہ یہ کہ یہاں نا ممکن کا لفظ نہیں ہے ۔آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی کام نہیں ہو سکتا ۔ یا یہ تو آپ نہیں کر سکتے۔میں نے اپنی میڈیکل کی ڈگری ،اپنا ایم بی بی ایس پا کستان سے کیا تھا ، لیکن اپنی شادی اور بچوں کی پیدائش سے پہلے ۔ بچوں کے بعد مجھے لگتا تھاکہ اب میں آگے نہیں پڑھ سکوں گی ۔ لیکن جب آپ امریکہ میں آتے ہیں ، تو آپ کو اندازہ ہو جا تا ہے کہ ناممکن نام کی چیز یہاں نہیں ہے۔اگر آپ کے پاس کوئی لگن ہے یا آپ نے کو ئی ارادہ کیا ہے تو ہر طرف سے آپ کی مدد ہو جا تی ہے۔اور آپ اپنا کا م مکمل کر لیتے ہیں ۔ اور میرے اپنے بچوں کو بھی ہم نے یہی چیز سکھائی ہے کہ فلاں کام نا ممکن ہے ۔ اگر ہم چاہیں تو ہم ہر کام کر سکتے ہیں ۔اور یہی چیز میرے بچے اپنے ساتھ پا کستان لے کر جائیں گے۔‘‘
نور صباح کی پی ایچ ڈی کی ڈگری پبلک ہیلتھ میں ہے ۔ ہیلتھ کئیر مینجمنٹ یا صحت عامہ کے شعبے کا انتظام نور صباح کی پی ایچ ڈی ریسرچ کا خاص موضوع ہے ۔ جس میں دیکھا جاتا ہے کہ اپنے ملک کی صحت عامہ سے متعلق پالیسیاں کیسے بہتر بنائی جا سکتی ہیں ۔ نور صباح کا پی ایچ ڈی کا تھیسس بچوں کی ویکسین پروگرام کو بہتر بنانے کے بارے میں ہے ۔جس میں دیکھا جا رہا ہے کہ پالیسی کیسے بہتر انداز میں کسی ملک کے کام آسکتی ہے ۔
نور صباح کہتی ہیں کہ پاکستان میں عوام کے پاس اپنی صحت کو بہتر بنانے کے لئے معلومات کی کمی ہے ۔ غربت کی وجہ سے صحت کا شعبہ سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے ، جنہیں حکومت کی توجہ کا مرکز ہونا چاہئے ۔۔کون سے ایسے پروگرام شروع کئے جائیں ، جو ماؤں اور بچوں کی صحت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکیں ۔ جن سے ان میں اپنی صحت کے بارے میں آگاہی بڑھائی جا سکے ۔ایک اور اہم چیز صحت عامہ کے شعبے کا معیاری ہونا ہے ۔ جس کے لئے پاکستان میں کوئی مخصوص پالیسیاں طے نہیں کی گئیں ۔ جب تک پالیسی درست نہیں ہوگی ، علاج معالجے کی معیاری سہولتیں مہیا نہیں کی جا سکتیں۔
نور صباح کہتی ہیں کہ کلینیکل سائنس میں مریضوں کے ساتھ معالج کا براہ راست رابطہ ہوتا ہے ۔ لیکن فل برائٹ پروگرام کے تحت کلینکل سائنس کے کسی مضمون میں اعلی تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ۔اس لئے میری پی ایچ ڈی ریسرچ پالیسی اور منیجمنٹ سے متعلق ہے ۔ نور صباح کہتی ہیں کہ پاکستان میں بہت ذہین ڈاکٹرز موجود ہیں ۔ جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ لیکن جب آپ پاکستان میں صحت کی صورتحال کو دیکھتے ہیں ۔ تو یہ کہنا پڑے گا کہ صحت کے شعبے میں ریسرچ کرنے والے فل برائٹ سکالرز جب پاکستان واپس جائیں گے ۔تو اپنی معلومات کو پاکستان میں شعبہ صحت کی بہتری کے لئے استعمال کر سکیں گے۔
< Urdu Times >
No comments:
Post a Comment